طورخم سے کابل

by admin

اگلی صبح وزیر اکبر خان میں جو کہ کابل کا پوش علاقہ ہے،وہاں جانا ہوا، انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جس میں صفائی کا اپنا معیار ہے،وزیر اکبر خان میں چند ملاقتیں تاجروں اور دیگر افراد سے ہوئی ،ان میں فریدون یا ان کے کسی ساتھی کا تعاون حاصل نہیں تھا، شائد افغان وزرا اور اہم افراد کی صرف مغربی میڈیا سے بات کرائی جاتی ہے، ان کے نزدیک پاکستانی میڈیا اور اردو میڈیا کی بس اتنی اہمیت ہے کہ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے حکومتی موقف سے آگا کیا جائے،شائد ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ان کے پیغام کا موثر پن ختم ہوتا جارہا ہے،کیونکہ جو خبریں شئیر کی جاتی ہیں، ان میں اکثر ایکس پر پہلی سے اس ادارے کے ترجمان کی جانب سے شیئر ہوچکی ہوتی ہیں،ان ملاقتوں ایک بات پر زور رہا کہ مہاجرین اور تجارت کے مسائل کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے،امارات اسلامی کی مکمل کوشش ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہوا،اس بات کی تردید کی گئی ہے امارات اسلامی میں کوئی اختلاف ہے، وہ امیرالمومنین شیخ ہیبت اللہ اخندزادہ کی قیادت میں متحد ہیں،البتہ خواتین کے تعلیم کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، اس پر بات چیت ہورہی ہے کہ اس کو کس طرح حل کیا جائے۔
چارسو بستر اسپتال کا دورہ بھی کیا۔ خواتین کا م کررہی تھی، کئی نے نقاب بھی نہیں کیا ہوا تھا، وہاں سے فار غ ہونے کے بعد خیر خانہ گئے، وہاں سے باگرام اور چاریکار والی سڑک پر سفر کیا،یہ سڑک امارات اسلامی نے بہت تیزی سے مکمل کی ہے اور یہی وہی راستہ ہے کو کہ قلعہ مراد بیک،میر بچہ کوٹ، کارا باغ سے چاریکار سے ہوتا ہوا سالنگ کو جاتا ہے جس کے ایک جانب پنجشیر کی وادی شروع ہوتی ہے اوردوسری جانب سے یہ سڑک شمالی علاقوں کو کابل سے منسلک کرتی ہے، دائیں طرف ایک سڑک مشہور باگرام کے ہوائی اڈے کی جانب جاتی ہے، جیسے امریکہ نے اپنی اہم اڈٖے ائیر بیس کے طور پر اکیس سال استعمال کیا، یہاں امریکہ نے بدنام زمانہ جیل بھی بنا رکھی تھی، جس میں طالبان قیدیوں اور رہنماوں پر بدترین تشد دکیا جاتا تھا، اب یہ بیس طالبان کے زیرنگین ہے،سڑک کے بائیں جانب پر پہاڑی سلسلہ گل درہ اور شکردرہ ہے، خیر سالنگ ٹنل برف باری کی وجہ سے بند ہونے کا اعلان ہوچکا تھا، ہم واپس کابل آئے، اور اگلے دن بذریعہ جہاز مزار شریف جانے کے لئے ٹکٹ خریدی۔
مزار شریف شمالی علاقوں کا اہم مرکز ہے،یہ رشید دوستم اور اسی نجی ملیشیاکا ہیڈکوارٹر بھی تھا،جی رشید دوستم جس نے دس ہزار سے زیادہ افغان طالبان کو دشت لیلی میں انتہائی تشدد کرنے کے بعد دفن کردیا تھا، جن کی قبریں آج بھی نہیں ہیں،البتہ امارات اسلامی نے اس دشت میں نشاندہی کے بعد علامتی قبرستان بنا لیا ہے، آج مزار شریف میں دوستم بھی نہیں اور اس کی ملیشیا بھی نہیں،خیر کابل ائیر پورٹ مکمل فعال نظر آیا، امارات اسلامی کے اہلکار چوکس نظر آئی،بورڈنگ کاونٹر پر خواتین اہلکار موجود تھی، جنھوں نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا، یہ جو لوگ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ خواتین پر ملازمتوں کی پابندی ہے، اس کی نفی نظر آئی، خیر ہم نے بورڈنگ پاس لیا اور لاونج میں جاکر انتظار کرنے لگے، افغانستان کی آریانا ائیر لائن کی یہ پرواز کابل سے مزارجس کی ٹکٹ پاکستانی روپوں میں تقریبا بیس ہزار روپے تھی، اچھی پروازہے، جہاز میں بھی خواتین عملہ موجود تھا،خیر جہاز تقریبا چالیس منٹوں تک پرواز کے بعد مزار شریف کے ہوائی اڈے پر اترا، ائیرپورٹ پر رش نہیں تھا، کیونکہ مزار شریف کے لئے آریانا اور کام ائیر کی ہفتے میں چند روز پروازیں ہیں، ائیرپورٹ سے باہر آئے تو ایک دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر آگے نکل گئے۔
اسی دوران خبر آئی کہ طورخم ایک بار پھر بند ہوگیا ہے،اس خبر کے بعد پاکستانی تاجر اور افغان تاجر پریشان ہوگئے، کیونکہ آلو اور کنو کا سیزن ہے، اور ازبکستان کے لئے ان کی گاڑیاں پاکستانی سائیڈ پر طورخم پہنچ چکی تھی، ہمارے ایک پاکستانی تاجر دوست حاجی ثمین نے کہا، کہ ہماری تجارت پہلے ہی اسی فیصد افغانستان کے ساتھ کم ہوچکی ہے،اب ایسا لگتا ہے کہ ازبکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ختم ہوجائے گی، کیونکہ ازبکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاہدوں میں اگر وقت پر ڈیلیوری نہیں کی جائے، تو بھاری جرمانے اور نقصان پاکستانی تاجروں کو برداشت کرنا پڑتے ہیں،انھوں نے بتایا،کہ اس وقت اس کی کئی گاڑیاں راستے میں ہیں، اور بارڈر باربار بند ہونے سے مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مزارشریف سے حیراتان کا سفر کیا، یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان سرحد ہے، یہ وہی سرحد ہے جس سے پاکستان سے بذریعہ افغانستان سے ازبکستان، کرغیزستان،قازقستان تجارت ہورہی ہے، سرحد کی دوسری جانب ازبکستان کا مشہور شہر امام ترمذی کا شہر ترمذ ہے، درمیان میں دریائے آمو کا مشہور دریا ہے، جس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح سمرقند، بخارا اور بلخ کی ریاست حضرت قتیبہ بن مسلم باہلہ نے فتح کی تھی، کس طرح امیر تیمور ان علاقوں پر حکمرانی کرتا رہا، مغل حکمران کہاں سے آئے،بارڈر پر سینکڑوں گاڑیاں موجود تھی، جو کہ ازبکستان داخل ہونے کو تیار تھی، حیراتان تک ازبکستان اور قازقستان سمیت چین سے ریل کے ذریعے کاروبار شروع کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ مزار شریف سے خرلاچی پاکستان تک کب ریلوے لائن کو بنایا جائے گا؟ کون مزار سے پشاور تک ریل پروجیکٹ کے لئے فنڈز فراہم کرے گا، یا سرحد پر جاری کشیدگی بارڈر کو مکمل بند کردے گی، لیکن ایک بات ضرور ہے دونوں جانب کی عوام امن اور تجارت چاہتی ہے، دونوں جانب ایک زبان ایک ثقافت اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا ایک ہی سوال ہے کہ کیا کرتار پور اگر بغیر ویزے کے کھول سکتا ہے تو طورخم کیوں نہیں؟ کیونکہ یہ سرحدیں ستر برس تک کھولی تھی اور کوئی مسئلہ نہیں تھا، اب جبکہ باڑ بھی موجود ہے تو کیوں یہ مسائل ہے، دونوں جانب کی عوام کھلی تجارت آسان آمدورفت چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ کابل اور اسلام آباد اسے کس نظر سے دیکھتا ہے۔

You may also like

This digital platform is our effort to highlight the issues, achievements, and voices of Khyber Pakhtunkhwa and beyond. We strive to uphold journalistic integrity, foster meaningful discussions, and contribute to a well-informed public. Join us on this journey to make a difference through responsible journalism.

تازہ ترین مضامین

ایڈیٹرز کا انتخاب